واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

حضرت امام جعفر صادق

رضی اللہ عنہ

 

آپ کی ولادت باسعادت ۸ رمضان المبارک ۸۰ ہجری کو مدینہ طیبہ میں ہوئی۔آپ کا نام گرامی جعفر، کنیت ابو عبداللہ ہے۔صدق مقال کے سبب آپ کو صادق کہتے ہیں۔آپ کے والد کا نام سیدنا حضرت محمد باقر رضی اللہ عنہ ہے۔ حضرت امام علی زین العابدین رضی اللہ عنہ آپ کے دادا  ہیں۔ نیز آپ کو تبع تابعین میں سے ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

اکابرین امت حضرت امام مالک و حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہما نے آپ سے احادیث روایت کیں ہیں۔ آپ کی والدہ محترمہ سیدہ ام فردہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پوتی بھی تھیں اور نواسی بھی۔  اس لیے آپ فرمایا کرتے تھے ”ولدنی ابوبکر مدتین“ کہ مجھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی دوہری اولاد ہونے کا شرف حاصل ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ نیکی تین اوصاف کے بغیر کامل نہیں ہوسکتی:

1.  تو اپنی ہر نیکی کو معمولی سمجھے۔

2.   اس کو چھپائے۔

3.   اس میں جلدی کرے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

                                      حضرت  امام  جعفر  صادق  کا  تاریخی  مقبرہ  جسے   1926میں  شہید  کر  دیا  گیا

آپ اہل السنۃ والجماعت کے پیشوا بالخصوص طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے سالار پیر طریقت ہیں۔آپ کی سیادت اور امامت پر سب کا اتفاق ہے۔عمروبن ابی المقدم  رحمتہ  اللہ  علیہ   فرماتےہیں کہ میں جس وقت امام جعفرصادق  رضی اللہ تعالٰی عنہ   کو دیکھتاہوں تومجھےمعلوم ہوجاتاہےکہ آپ خاندان نبوت سےہیں۔

امام ربانی حضرت مجددالف ثانی  رحمتہ  اللہ  علیہ   فرماتےہیں کہ حضرت صدیق اکبر  رضی اللہ تعالٰی عنہ   سےنسبت صدیقی حضرت سلمان فارسی  رضی اللہ تعالٰی عنہ   کو پہنچی۔ پھریہی نسبت بعدمیں حضرت امام قاسم  رضی اللہ تعالٰی عنہ   کو پہنچی اوروہاں سےیہ نسبت حضرت امام جعفرصادق  رضی اللہ تعالٰی عنہ   کو حاصل ہوئی۔ حضرت امام قاسم  رضی اللہ تعالٰی عنہ   حضرت امام جعفرصادق  رضی اللہ تعالٰی عنہ   کے ناناتھے۔کیونکہ حضرت امام جعفرصادق  رضی اللہ تعالٰی عنہ   نے اپنے باپ داداسےبھی نورحاصل کیاتھااوروہ سلوک فوقانی سے مناسبت رکھتاہےاس لئےجذب کی تحصیل کےبعدسلوک فوقانی کےذریعےمنزل  مقصودپہنچے اوردونوں نسبتوں کےجامع ہوگئے۔ پھریہ نسبت حضرت امام جعفرصادق  رضی اللہ تعالٰی عنہ   سےباطریق ا مانت سلطان العارفین حضرت بایزیدبسطامی  رحمتہ  اللہ  علیہ   کوروحانیت کےراستہ سےپہنچی جوکہ اویسی ولیوں کاطریقہ ہے۔

آپ لطائف تفسیراوراسرارتنزیل میں بےنظیرتھے۔ علامہ ذہبی نےآپ کوحفاظ حدیث میں شمارکیاہےجبکہ امام ابوحنیفہ  رضی اللہ تعالٰی عنہ   ، امام مالک  رحمتہ  اللہ  علیہ  ،سفیان ثوری  رحمتہ  اللہ  علیہ  ، سفیان یمینہ  رحمتہ  اللہ  علیہ  ، حاتم بن اسماعیل  رحمتہ  اللہ  علیہ  ، یحیی قطان  رحمتہ  اللہ  علیہ  ، ابوعاصم  رحمتہ  اللہ  علیہ   نےآپ سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ حضرت امام ابو حنیفہ  رضی اللہ تعالٰی عنہ   فرماتےہیں کہ میں نے اہل بیعت میں امام جعفرصادق  رحمتہ  اللہ  علیہ   سے بڑھ کر کسی اورکو فقہیہ نہیں دیکھا۔

حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت امام جعفرصادق  رحمتہ اللہ علیہ

کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا۔ میں نے ان کو حدیث شریف بیان کرتے وقت کبھی بےوضونہیں دیکھا۔ میں نے عرصہ درازتک ان کی خدمت میں حاضری دیتارہامگرجب بھی ان کےقدموں میں پہنچاتوان کونمازپڑھتےیاخاموش بیٹھےیاقرآن کریم کی تلاوت کرتےپایا۔ وہ خلوت میں کبھی بھی فضول و لغو کلام نہیں کرتےتھے۔ علوم شریعہ کےعالم باعمل اورخداترس تھے۔

آپ کی بےشمارکرامات ہیں لیکن بطورتبرک چندایک کا ذکرکیاجاتاہےتاکہ قارئین کرام اپنے کشت ایمان کو سرسبزوتازہ کرکےان کےنقش قدم پر چلیں ۔

ایک روزحضرت امام جعفرصادق رحمتہ اللہ علیہ مکہ مکرمہ کی ایک گلی سے گزررہےتھےکہ ایک عورت کو بچوں کےساتھ روتے دیکھاجس کےآگےمردہ گائےپڑی ہوئی تھی۔ آپ نے رونےکاسبب دریافت کیاتواس عورت نےکہاکہ ہمارےپاس صرف ایک ہی گائےتھی جس کے دودھ سےہماراگزاراہورہاتھا۔اب یہ مرگئی ہےتوہم پریشان حال ہیں کہ اب کیاکریں گےگزاراکیسےہوگا۔ آپ نےارشادفرمایاکیاتویہ چاہتی ہےکہ اللہ تعالیٰ اسے زندہ کردے؟ اس نےکہاہم پرتومصیبت طاری ہےاورآپ ہم سے مذاق کرتے ہیں۔ آپ نےفرمایامیں مذاق نہیں کرتاپھرآپ نے دعافرماکرگائےکوایک ٹھوکرماری اور وہ زندہ ہوکر کھڑی ہوگئی۔

عباسی خلیفہ منصورآپ کی لوگوں میں مقبولیت سےسخت پریشان تھااورذاتی عنادرکھتاتھا۔ اس نےاپنےوزیرکوحکم دیا کہ حضرت امام جعفرصادق   رحمتہ  اللہ  علیہ   کو بلایاجائےتاکہ انہیں قتل کیاجائے۔ وزیرنےبادشاہ کوسمجھایاکہ ایسے شخص کوقتل کرنےکا کوئی فائدہ نہیں ہوگاجس شخص کے شب وروز زہدوعبادت، گوشہ نشینی اورملکی حالات سےعدم دلچسپی میں گزرتے ہوں۔ لیکن خلیفہ منصور بضدرہااورحضرت امام جعفرصادق  رحمتہ  اللہ  علیہ   کو بلانےکاحکم دیا۔ خلیفہ منصورنےاپنےسپاہیوں کو حکم دیاجونہی حضرت امام جعفرصادق  رحمتہ  اللہ  علیہ   نمودارہوں اور میں سرسےٹوپی اتاروں توتم فوراً تہ تیغ کردینا۔

جب حضرت امام جعفرصادق  رحمتہ  اللہ  علیہ   خلیفہ منصورکےدربارمیں تشریف لائےتوخلیفہ منصورآپ کودیکھتےہی آپ کے استقبال کےلئےآگےبڑھااورآپ کوادب واحترام سےاپنےتخت پربٹھادیااورخودعجزوانکسارکےساتھ سامنے بیٹھ گیا۔ سپاہی یہ منظردیکھ کرحیران وپریشان ہوگئے۔ خلیفہ منصورنےدست بدستہ  عرض کیا کہ حضوروالااگرکسی چیزکی ضرورت ہوتوحکم فرمائیں۔ حضرت امام جعفر  رحمتہ  اللہ  علیہ   نےارشادفرمایاآئندہ پھرکبھی مجھےاپنےپاس نہ بلانا۔ یہ ارشادفرماکرآپ تشریف لےگئےاور خلیفہ منصوربےہوش ہوکرنیچےگرپڑااورمسلسل تین روزتک بےہوش رہا۔ بعض روایات میں آیاہے کہ اس کے تین نمازیں فوت ہوگئیں۔

خلیفہ منصورکوجب ہوش آیاتووزیرنےپوچھاکیامعاملہ تھاجس پرخلیفہ منصوربولاکہ جب حضرت امام جعفرصادق  رحمتہ  اللہ  علیہ   یہاں جلوہ افروزہوئےتوایک بہت بڑااژدھاآپ کےہمراہ تھاجس کا ایک جبڑامحل کےنیچےاوردوسرامحل کےاوپرتھااورمجھے کہہ رہاتھاکہ اگرتونےحضرت امام جعفرصادق  رحمتہ  اللہ  علیہ   کو ذرابھی تکلیف پہنچائی تو میں تمہیں اس محل سمیت نگل جاؤں گا۔ اس وجہ سے مجھ پربےپناہ خوف طاری ہوگیااورمیں حضرت امام جعفرصادق  رحمتہ  اللہ  علیہ   سےکچھ نہ کہابلکہ عذرکیااور پھربےہوش ہوگیا۔

آپ نےفرمایاپانچ قسم کےلوگوں کی صحبت سےاجتناب کرنےمیں بہتری ہے۔

۱۔ جھوٹےسےاجتناب کروکیونکہ اس کی صحبت فریب میں مبتلاکردیتی ہے۔

۲۔ بےوقوف سےاجتناب کروکیونکہ وہ تمہارےفائدےسےزیادہ تمہیں نقصان پہنچائےگا۔

۳۔ کنجوس سےاجتناب کروکیونکہ وہ تمہارابہترین وقت ضائع کریگا۔

۴۔ بزدل سےاجتناب کرو کیونکہ وقت پڑنےپروہ تمہاراساتھ چھوڑدیگا۔

۵۔ فاسق سےاجتناب کروکیونکہ وہ ایک نوالہ کی طمع میں کنارہ کش ہوکرمصیبت میں مبتلاکردیتاہے۔

آپ فرماتےہیں صاحب کرامت وہ ہےجواپنی ذات کےلئےنفس کی سرکشی سےآمادہ بجنگ رہےکیونکہ نفس سےجنگ کرنااللہ تعالیٰ تک رسائی کاسبب ہوتاہے۔

آپ فرماتےہیں کہ مومن کی تعریف یہ ہےکہ نفس کی سرکشی کامقابلہ کرتارہےاورعارف کی تعریف یہ ہےکہ اپنے مولاکی اطاعت میں ہمہ تن مصروف رہے۔

آپ نے ۱۵ رجب المرجب ۱۴۸ ہجری کو مدینہ طیبہ میں۶۸سال کی عمر مبارک میں اس دارفانی کو الودع کہااورجنت البقیع میں قبہ اہل بیعت میں مدفون ہوئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔